logo

ہمارے بارے میں

منہج سلف پر قرآن وحدیث کی تبلیغ واشاعت کی علمبردار - مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان

فالو کریں

سینیٹر پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ کا سینئیر صحافی اعزاز سید کے ساتھ اہم انٹرویو حالات زندگی، تنظیمی و سیاسی معاملات اور بہت سے اہم انکشافات

السلام علیکم میں ہوں اعزاز سید program talk shock کے لیے آج کی talk shock میں ہمارے پاس بڑے ہی سینئر سیاستدان اوربڑے اہم مہمان ہیں پروفیسر ساجد میر جو مرکزی مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے  سربراہ ہیں  میں مذہب کے بارے میں اتنا کچھ نہیں جانتا۔میری معلومات بڑی کم ہیں تو مجھے امید ہےکہ […]

Ahlehadis

سینیٹر پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ کا سینئیر صحافی اعزاز سید کے ساتھ اہم انٹرویو حالات زندگی، تنظیمی و سیاسی معاملات اور بہت سے اہم انکشافات

featuredImage

السلام علیکم میں ہوں اعزاز سید program talk shock کے لیے آج کی talk shock میں ہمارے پاس بڑے ہی سینئر سیاستدان اوربڑے اہم مہمان ہیں پروفیسر ساجد میر جو مرکزی مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے  سربراہ ہیں

 میں مذہب کے بارے میں اتنا کچھ نہیں جانتا۔میری معلومات بڑی کم ہیں تو مجھے امید ہےکہ ساجد میر صاحب میری اگر کوئی سوال میں گستاخی ہو تو مجھے طالب علم سمجھ کر معاف کریں گے۔ ساجد میر صاحب کی جو سیاسی زندگی ہے وہ بڑی اہم ہے۔یہ کم و بیش بیس پچیس سال سے  پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کیے ہوئے ہیں۔پارلیمانی سیاست کے اندر ہیں لیکن ان کی زندگی کیسے بنی؟ سیاست میں کیسے آئے؟ اورسیاسی  زندگی میں جو  Controversies (تنازعات) ہیں آئیے ان سب موضوعات پر ان سے بات کرتے ہیں۔

صحافی:

ساجد  میر صاحب بہت شکریہ آپ کا۔

 آپ  سیالکوٹ میں پیدا ہوئے،  جب پاکستان بنا  عمر 9 برس تھی،تو  بچپن کی کیا Memories (یادیں)ہے؟

امیرِ محترم:

بچپن کی میموری (یادوں) میں سے یہ ہے کہ ہمارا گھرانہ مسلم لیگی تھا میرے دادا (اصل میں تو میرے والد صاحب کے چچا تھے لیکن  ہم انہیں ہی  دادا  سمجھتے تھے اصل دادا ہم نےنہیں دیکھے)  وہی ہمارے خاندان کے بزرگ تھے اور وہ reknownwed (معروف)عالم دین تھے مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ان کا نام تھا جو نہ صرف united انڈیا کی سطح پربلکہ  اس وقت کے عالم اسلام کی سطح پر وہ معروف شخصیت تھے۔

دینی خدمات کے ساتھ ساتھ انہوں نے تحریک پاکستان میں مکمل طور پربڑے اچھے طریقے سے قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیا۔

اور پورے انڈیا میں  جیسے کہ کہا جاتا تھا کلکتہ سے راج کماری تک انہوں نے تقریریں کیں۔حیدرآباد، دکن، بنگال ، پنجاب اور دوسرے صوبوں تک  گئےجہاں انہوں نے پاکستان کے حق میں تقریریں کیں ۔

اور تقاریر کیساتھ  مولانا ابوالکلام آزاد جیسے جو کانگریسی و  دینی رہنما اور علماء  بھی تھےان کی جانب سے  قیامِ پاکستان کے خلاف دینی دلائل جو دیے جاتے تھے ان کی  بھی انہوں نےتردید کی۔

 اُس وقت کے جو معروف اخبار تھے۔”زمیندار”/احسان” ان میں ان کے پاکستان کے حق میں آرٹیکل آتے تھےجن کو بعد میں کتابی شکل دی گئی اور اسی حوالے سے میاں نواز شریف صاحب کے دور میں انہیں بعد از وفات  گولڈ میڈل کا اعزاز دیا گیا

والد صاحب بھی مسلم لیگی ذہن کے تھے ۔یہ  میرا خاندانی پس منظر ہے۔

اور میں  بچپن سے ہی  چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ ملا کر  چھوٹا سا  جلوس  بنا کے  پاکستان کے  حق میں نعرے لگاتا  ،لفظِ پاکستان کو صحیح طور پر میں ادا تو نہیں کر سکتا تھا لیکن ایک جذبہ تھا۔ اس طرح ایک سیاسی ذہن بچپن سے ہی  تھا لیکن عملی سیاست میں جیسے آپ نے کہا وہ ایک داستان ہے

صحافی:

عملی سیاست میں تو آپ میرے خیال میں)I.J.Iاسلامی جمہوری اتحاد( سے پہلے آ گئے تھے؟

امیرِ محترم:

جی اسی زمانے میں تقریبا آیا تھا۔

صحافی:

آپ کی پہلی جماعت مرکزی جمعیت اہلحدیث ہی تھی ؟

امیرِ محترم:

جی ہاں            میں  شروع سے اسی جماعت کے ساتھ منسلک  رہا ہوں۔ پہلے ضلعی  سطح پر سیالکوٹ کا جنرل سیکرٹری تھااس کیساتھ   جماعت کے امیر معروف دینی اور سیاسی رہنما مولانا سید داؤدغزنویؒ (جو  پنجاب اسمبلی کے ممبر بھی کسی زمانے میں رہے) ان کی ورکنگ کمیٹی میں بھی میں شامل تھا۔ بعد میں پھر ہوتے ہوتے جنرل سیکرٹری بنا ،پھر امیر بنا  اور اب اسی حیثیت سے کام کر رہا ہوں۔

صحافی:

آپ نےسیاست میں قدم کب رکھا؟

امیرِ محترم:

 غالبا1992  میں ہماری ایک کانفرنس میں امام کعبہ تشریف لائے تھے۔اس وقت مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہماراالائنس(اتحاد)  چل رہا تھا ۔تو اس کانفرنس  میں میں  نے کہا کہ حکومت نے کچھ دینی اقدامات میں کوتاہی کی ہے۔ نفاذِ اسلام جو کہ  قیامِ پاکستان کاابتدائی اور بنیادی نعرہ تھا۔اس میں کوتاہی برتی گئی ہے ۔اگر تین مہینے تک  حکومت کی جانب سے عملی  اقدامات  نہیں اٹھائے جاتے   تو ہم ان کے ساتھ الائنس (اتحاد) ختم کر دیں گے۔

آپ جانتے ہیں کہ سعودی شاہی خاندان  اور آئمہ حرم سے شریف خاندان کے اچھے تعلقات رہے  ہیں

تو اس کانفرنس کے اگلے دن  میاں  نواز شریف صاحب نے بطور وزیر اعظم پاکستان امام کعبہ کی governor house میں دعوت کی ہم  چونکہ امام صاحب کے  میزبان تھےتو ہمیں بھی بلایاگیا

تو وہاں میاں نواز شریف  خود بھی تشریف فرما تھے لیکن انہوں  نے خود تو نہیں لیکن کسی سے کہلوایا کہ کل جو آپ نے اعلان کیا تھا اس کو ذرا گول مول کر دیں یا اس کی کوئی تردید کر دیں۔

تو میں نے کہا کہ میں بات سوچ سمجھ کے کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور بعد میں پھر اس کی تردید نہیں کرتا میاں صاحب بولے کچھ نہیں لیکن ان کا سرخ اور سفید چہرہ  غصے سے مزید سرخ ہو گیا ،یہ ہمارے تعلقات کی ابتدا ہے۔

 اس کے کچھ عرصہ بعد ہی  اسحاق خان نے میاں صاحب کو  برخاست کر دیا تو ہم وقت لے کرمیاں صاحب کے پاس گئے جو اس وقت چوہدری شجاعت کے گھر میں  ٹھہرے ہوئے تھے ۔

 میں نے بات کی اور کہا  کہ ہم نے آپ کو اس وقت چھوڑا تھا جب کہ آپ کا اقتدار عروج پر تھا اب اسحاق خان  نے نکالا ہے establishment یا فوج اس کے پیچھے ہے۔

 ہماری جماعت ہمیشہ فوجی مداخلت کے خلاف رہی ہے تو اب ہم آپ کا ساتھ دیں گے جتنے بھی ہم ہیں اور  جو بھی کام کر سکتے ہیں۔

میاں صاحب  بڑے خوش ہوئے ، ہم اس کے بعد  بیانات وغیرہ کی حد تک چھوٹی  موٹی activity ان کے حق میں کرتے رہے ۔

سینیٹ کے انتخاب کا وقت آیاتومسلم لیگ ن نے بغیر کسی Consultation(مشاورت ) اور  اطلاع کے یکطرفہ اخبارات میں اعلان کر دیاکہ جمعیت اہلحدیث نے ہمارا ساتھ دیا ہے تو ہم ایک channel room  ان میں سے لیں گے۔

اسی زمانے میں اتفاق سے ہماری working committee کا اجلاس تھا جس میں  اس اعلان کے پس منظر میں میرا نام تجویز کیا کہ اگر ہمارا کوئی نمائندہ مقرر  ہوگا تو یہ ہوگا ۔ہماری جماعت کے دوبزرگ  میاں فضل حق ؒ ،اور  مولانا معین الدین لکھوی ایم این اے بھی رہے ہیں  یہ دو الگ گروپس تھے بعد میں ہم نے کوشش کر کے انہیں اکٹھا کر دیا ۔ میاں فضل حقؒ وہ تھے  جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا تھا جبکہ ہم نے ساتھ نہیں دیا تھا ہم اس  عمل کے خلاف تھے۔اس  زمانے میں یہ دونوں ہمارے  بزرگ مجلس شوریٰ کے ممبر تھے۔ان  دونوں کو میاں نواز شریف  صاحب پرانا جانتے تھے ۔ میاں فضل حق کو  نواز شریف صاحب نے اپنے گھر ماڈل ٹاؤن  بلایا ۔ اور کہا کہ میاں صاحب جو ہم نے  سینیٹر ship کا اعلان کیا تھا  وہ آپ کے لیے تھا تو آپ اس کی تیاری کریں ۔

جس پر میاں فضل حقؒ نے کہا  کہ ہمارے دو گروپ تھے بڑی مشکل سے ہم اکٹھے ہوئے۔ اب میں کوئی نئی دراڑ  نہیں ڈالنا چاہتا۔ ہماری جماعت نے فیصلہ   ساجد میر  کے حق میں کیا ہے ۔

 تو میاں  نواز شریف صاحب کے الفاظ جو میاں فضل حقؒ نے مجھے  بتائے :انہوں نے کہا کہ وہ وہ ٹھیک بندہ نہیں ہے میاں نواز شریف  کے ذہن میں 1992  کی کانفرنس میں نفاذ اسلام کے حوالے سے میری  کی جانے والی بات تھی۔

تو میاں فضل حقؒ نے کہا کہ بندہ ٹھیک ہے کسی وقت وہ اصولی اختلاف کرتا ہے (اور اس وقت تو وہ کہہ سکتے تھے) کہا کہ وہ جوان  ہے میں بوڑھا ہوں اوروہ پڑھا لکھا ہے ۔بڑے با دِلِ نا خواسْتَہ میاں صاحب تیار ہوئے  اور میں سینیٹر منتخب ہو گیا اس کے بعد قریب  سے ملنے کے بعد  ہمارے تعلقات بہت اچھے ہو گئے ایک دوسرے کے مزاج  کو  ہم نے سمجھ لیا ۔

سینیٹر شپ کا پہلی مرتبہ تو  انتخاب ہو گیا اگلے سینٹ کے الیکشن سے قبل 12اکتوبر  والا واقعہ پیش آگیا  میاں صاحب گرفتار ہوگئے، جیل گئے پھر جدہ چلے گئےمیں جب کبھی عمرہ وغیرہ یا کسی کام سے سعودیہ جاتا تو میاں صاحب سے ملاقات  کے لیے چلا جاتا میرے دوست مجھے منع کرتے کہ ادارے نظر رکھے ہوئے ہیں کہ ایک کرنل صاحب پاکستان کے کونسلیٹ جدہ میں خاص   نظر رکھتے ہیں کہ کون ان سے مل رہا ہے جبکہ  سارا پاکستان  اور میڈیا   کہہ رہا تھا کہ شریف فیملی  نہ  تو اب یہ پاکستان واپس آئے گی  اگر آ بھی گئے تو پاکستان کی سیاست میں تو آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ لیکن میں کسی  لالچ کے تحت تو ملتا نہیں تھا بس مروتا ملاقات کرتا  تھوڑی دیر بیٹھتا  اور آ جاتا ۔ اسی طرح ایک دفعہ میں بیٹھا ہوا تھا یہ دونوں بھائی اتفاق سے موجود تھے اور تیسرا آدمی میں تھا 2002 کا سینٹ الیکشن بالکل قریب تھا تو بڑے میاں صاحب نے چھوٹے سے کہا شہباز:اب تو اپنے بھی ساتھ چھوڑ گئے ہیں لیکن پروفیسر صاحب اب بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں ۔ہمارے حق میں بیان دیتے ہیں آرٹیکلزلکھتے ہیں تو میرا دل چاہتا ہے کہ Next Time  (اگلی مرتبہ)بھی سینٹ بنے تو یہ اس میں آئیں۔ شہباز شریف صاحب نے کہا  ٹھیک ہے  ٹھیک ہےبھائی جان۔

تو میں آگیا میں نے یہ بات  کسی سے ذکر نہیں کی سوائے اپنی اہلیہ کے کیونکہ  اہلیہ تو اہلیہ ہوتی ہے۔

بہرحال سینٹ کے انتخاب  کا وقت آیا تو  میرے جماعتی دوست میرے پیچھے پڑ گئےکہ آپ میاں صاحب  سے سینٹ کی سیٹ کی بات تو کریں میں نے کہا کیا بات کریں؟

ان کے پنجاب assembly میں 42 یا43 ممبر ان ہیں۔ دو Member ان کے سینٹ میں  آ سکتے ہیں وہ اپنے بندوں کو کریں گے  یا مجھے کریں گے ۔جب دوستوں نے بے حد اصرار کیا تو میرے منہ سے یہ بات  نکل گئی ہے کہ میاں صاحب نے  جدے  میں مجھ سے یوں کہا تھا

تو دوست کہنے لگے پھر ابھی کال کرو اور بات کرو میں نے کچھ سوچ بچار کر کے اگلے دن میاں صاحب کوفون کیا  پہلے تو اظہار افسوس کیا کہ آپ کی سیٹیں اچھی بھلی آ رہی تھیں  پھر رات کے اندھیرے میں وہ ختم کر دی گئیں تو میاں صاحب کہنے لگے دیکھ لو ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟میں اب سوچوں کہ میں اب ان سے کیا  بات کروں چند سیکنڈ یا ایک آدھ منٹ خاموشی رہی بہرحال کچھ سوچنے کے بعد میں نے کہا میاں صاحب وہ جدے میں آپ نے ایک بات کی تھی اتنا ہی میں نے کہا انہوں نے کہا ہاں  مجھے یاد ہے دو سیٹیں ہماری آ رہی ہیں ایک آپ ہیں اور ایک اسحاق ڈار ہے۔

بہرحال دوسری مرتبہ ایسے سینٹ میں منتخب ہو گیا پھر تیسری چوتھی پانچویں مرتبہ ہے نواز شریف صاحب کا جب nomination Papers (کاغذات نامزدگی( دینے کا وقت آتا ہےتو ان کا اپنا فون آ جاتا ہےکہ   پروفیسر صاحب کاغذ جمع کروائیں۔

حالانکہ چوتھی دفعہ میں نے  کہا  میاں صاحب میں نے آپ کو پیغام بھیجا تھا ملاقات نہیں ہو سکی  کہ میں اس دفعہ تیار نہیں ہوں لیکن سیٹ ہماری جماعت میں رہےتین نام میں نے آپ کو بھیجے تھےانہوں نے کہا نہیں نہیں آپ ہی  ٹھیک ہیں کاغذ جمع کروائیں تو اس طرح معاملہ چلتا رہا ہے  نہ میں نے کبھی اپلائے کیا ہے نہ میں نے کبھی ان کو کہا ہے نہ میں نے کبھی ان کی فیس دی ہے نہ میں نے کبھی ان کا فارم   sign کیا ہے۔

صحافی:

اچھا سر یہ جو )I.J.Iاسلامی جمہوری اتحاد( میں آپ اورآپ کی جماعت تھی  اس میں مرکزی جمعیت اہلحدیث ،جماعت اسلامی اور کچھ individuals (شخصیات)کا نام بھی ہے جن کے بارے میں معروف ہوا کہ انہوں نے I.S.Iسے پیسے لیے تھے اور بڑا مشہور  اصغر خان کیس تھا تو اس وقت  یہ سارا معاملہ  آپ کے knowledge (علم)میں تھا؟

امیرِ محترم:

قطعا نہیں بلکہ یہ معاملہ جو تھا تو اوپر اوپر تھا ہم لوگوں کو اس کا کوئی علم نہیں تھا بعد میں  اخبارات کے ذریعے جب trial وغیرہ اس کا case شروع ہوا تو اس وقت ہمارے علم میں یہ بات آئی ۔

 

 

 

صحافی:

اسی دور کا ایک اور معاملہ بھی ہے  اسامہ بن لادن کا: آپ اہلحدیث ہیں اسامہ بن لادن بھی اگر مسلکی اعتبار سے دیکھیں تو وہ اہلحدیث تھے تو اسامہ بن لادن نواز شریف صاحب کو ملے تھے انہوں  نےآپ سے بھی کوئی مشاورت کی؟اور کیا ان کی آپ  سے کبھی ملاقات ہوئی تھی؟

امیرِ محترم:

 نواز شریف صاحب سے تو ملاقات ان کی ہوئی تھی لیکن ہم نے دور دور سے بس سنا  ہمارا  اس کے ساتھ کوئی لین دین نہیں تھا کیونکہ آپ جانتے ہیں وہ سعودی عرب کی   گُڈ بُک میں نہیں تھا ۔نواز شریف صاحب سے  ملاقات کا بعد میں اخبارات اور میڈیا معلوم ہوا کبھی میاں صاحب سے براہ راست  اس موضوع پربات نہیں  ہوئی۔

صحافی:

  مرکزی جمعیت اہلحدیث کا سعودی عرب سے کیا تعلق ہے ؟

امیرِ محترم:

دینی ہم آہنگی اور  ہم مسلکی بنیاد پر سعودی  عرب سے ہمارے  اچھے تعلقات ہیں کیونکہ وہ بھی ہماری  طرح سلفی سوچ  کے حامل ہیں۔ سلفی سے مراد یہ ہے کہ ہم سب آئمہ ِ  دین کا احترام کرتے ہیں اُن کی  عزت اور  ان کے کام کی قدر کرتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ Guidance اور رہنمائی وہ Directly (براہِ راست) قرآن و حدیث سے لینی چاہیے۔ اگر خود نہیں آدمی لے سکتا تو ان لوگوں سے ملے جو کہ Directly (براہِ راست) قرآن و حدیث سے فتوی اور رہنمائی دیتے ہیں۔سعودیہ کے اکثر لوگnominally(برائے نام) حنبلی کہلاتے ہیں لیکن عملا ً ان کے جو بڑے بڑے آئمہ ، علماء  اور شاہی خاندان  کے لوگ ہیں عملا وہ سلفی سوچ کےحامل   ، کتاب و سنت کی پیروی کرنے والے  ہیں اور ہمارا  سعودی عرب سے  تعلق  اس وقت  زیادہ بنا جب شاہ عبدالعزیز برسرِ اقتدار آئے تو  انہوں نے  قبروں وغیرہ کے زیادہ بلند ہونے کی  بات  کی اور تمام تر قبروں کو برابر  کر دیا  ۔ اس وقت سعودی عرب  کی مخالفت خاص طور پر ہندوستان میں شروع ہوئی  پھر یہاں کے جو ہمارے اہل حدیث علماء تھے مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ،مولانا  ابراہیم میر سیالکوٹیؒ  میرے جو دادا تھے ان لوگوں نے سعودیہ کی  حمایت میں بیانات دیےاور ہمارے علماء کے وفود بھی وہاں گئے۔

اس وقت سعودیہ کے مالی حالات بھی کوئی زیادہ  اچھے نہیں تھے تو  وفود یہاں سے مالی امداد بھی وہ لے کر جاتے رہے ۔

صحافی:

 کیا یہ درست ہے کہ سعودی عرب مرکزی جمعیت اہلحدیث کی مالی امداد بھی کرتا ہے ؟

امیرِ محترم:

سرکاری سطح پر آج تک مالی امداد نہیں ہوئی لیکن وہاں کے  مخیرین مسجدیں بنانےاور  بعض مخصوص کاموں میں وہ دوسرے دینی جماعتوں کے طرح ہمارے ساتھ چلتے ہیں۔

صحافی:

کہا یہ جاتا ہے کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث یا دیگر اہلحدیث کی  مساجد ومدارس  اور اہلحدیث کے جو  individuals (افراد )ہیں وہ دیگر مسالک کی بنسبت  سب سے زیادہ ممُتَمَوِّل(مال دار) ہیں؟

امیرِ محترم:

 ایسی بات نہیں ہے میں آپ کے سامنے ہوں۔ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں اللہ کا شکر ہے بڑی عزت کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ لیکن مجھے بھی  بہت متمول نہیں کہا جا سکتا ۔

صحافی:

اچھا تو یہ بتائیے 12 اکتوبر 1999 کا واقعہ جب ہوا تب آپ کدھر تھے؟

امیرِ محترم:

 میں اسلام آباد میں تھا اور یہاں سے پھر بوریا بستر اٹھا کے جانا پڑا کیونکہ اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ خلاف دستور   قرار دے دیا گیا اورسینیٹ بھی ختم کر دیا گیا۔

صحافی:

تو اس وقت آپ کو کوئی گرفتار نہیں کیا گیا؟

امیرِ محترم:

نہیں مجھے گرفتار تو نہیں کیا گیا تھا(چونکہ  میرا بیان شاید پہلا بیان تھا جو پرویز مشرف کے مارشل لاءکے خلاف آیا تھا  )البتہ مجھےسیالکوٹ کے ڈپٹی  کمشنر(وہاں کے کوئی بریگیڈیئر کوئی تھے) کا فون آیا   کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا جی میں نے کہا  ہےکہ جو کچھ ہوا ہے دستور کے خلاف ہوا ہے ۔بہرحال  الحمداللہ میں  کسی بہت بڑی مشکل سے نہیں گزرا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ ایک تو 12 بندوں نے میرے سمیت supreme court میں اس take over کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی تو ان 12 لوگوں  کے خلاف پرویز مشرف کی  حکومت یہ ثابت کرنا چاہتی تھی They have not come to supreme court with Green hands

میرے بارے میں یہ کھوج لگایا  کہ میری سیالکوٹ میں چار properties ہیں اور میں نے  پیپرز میں دو   کسی اور جگہ شو  کروائی ہیں  بعض میں دو کسی اور جگہ ۔ تو میں نے پریس کانفرنس کی اور میں نے کہا کہ میری  properties  دو ہی ہیں تیسری کوئی ہے تو   government لے لے۔

اس کے علاوہ جو میرے ساتھ  زیادہ سے زیادہ ہوا ہے وہ یہ تھا کہ میری انکم ٹیکس فائلز  سیالکوٹ سے اٹھا کر لاہور میں بھیج دی گئیں وہاں کے deputy کمشنر انکم ٹیکس نے مجھے بلایا اور کہا کہ میرے والد صاحب سیالکوٹ پولیس میں posted تھے میں سیالکوٹ رہا ہوں میں آپ کو دور سے جانتا ہوں آپ کی family کو اچھی طرح جانتا ہوں مجھے پتا ہے آپ ٹھیک بندے ہیں لیکن مجھے جو حکم ہوا میں نے ان فائلوں میں سے کچھ نہ کچھ نکالنا ہے پیشگی معذرت  کرنا چاہتا ہوں ۔

میں نے کہا ٹھیک ہے آپ اپنی ڈیوٹی  کریں تو وہ یہ کرتے تھے کہ اور میں حیران ہوتا تھا کہ پانچ سال پرانے جو اوور ڈیٹ  cases ہیں وہ بھی کسی طرح  نکال لیتے تھے اور  cases کیا تھے مثلا میری چھوٹی سی market ہے دکانیں ہیں ان کا کرایہ اس زمانے میں پانچ سات سو  یاہزار کے قریب تھا تو وہ کہتے کہ آپ   نےکرایہ کم show کیا ہوا ہے  ان کا کرایہ زیادہ  ہونا چاہیے اوراس کا ٹیکس  بھی زیادہ بننا چاہیے۔ تین ،چار مرتبہ انہوں نے چند ہزار روپے ٹیکس  ڈالااور  ایک مرتبہ ڈیڑھ لاکھ ڈال دیالیکن ساتھ ہی کہا کہ اس کی آپ اپیل کریں تومعاملہ  ٹھیک ہو جائے گا میں نے  اپیل کی تو  وہ  ٹیکس کم ہو گیا۔بس اس طرح کی تھوڑی بہت مشکلات پیش آئیں  الحمدللہ اس کے علاوہ کوئی معاملہ نہیں بنا۔

صحافی:

 نواز شریف  صاحب کے خلاف جب 12 اکتوبر 1999  کو معاملہ پیش آیاتو اس سے پہلے ظاہر ہے کارگل بھی ہوا تھااور آپ سینیٹ آف پاکستان میں تھے تو آپ کو کب پتہ لگا کہ فوج نے شریف صاحب کو ہٹانے کا پلین کر لیا  ہے؟

امیرِ محترم:

 آثار تو  پہلے سے نظر آ رہے تھے پرویز مشرف صاحب سے اختلافات اور پھر ہائی جیک  کا کیس وغیرہ بنا اور چلا لیکن آثار اس کے پہلےسے ہی  بن رہے تھے۔

صحافی:

آپ کی میاں نواز شریف سے اس قدر قربت اور محبت کی وجہ کیا ہے؟نواز شریف آپ سے اس قدر محبت کیوں کرتے ہیں؟

امیرِ محترم:

تین حرفوں کا ایک لفظ ہے وفا بس وہ اس وفا کی قدر کرتے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا  کہ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں  اپنے بھی ساتھ چھوڑ گئے لیکن یہ پیچھے نہیں ہٹا اور ہمارے ساتھ کھڑا رہا اور اس کے علاوہ  کوئی بات نہیں.

صحافی:

نواز شریف صاحب نے تو آپ سے وفا کی انتہا کیاور آپ نے بھی ظاہر ہے نواز شریف صاحب سے وفا کی لیکن اس محبت اوروفا میں آپ نہیں سمجھتے کہ آپ کی اپنی جماعت مرکزی جمعیت اہلحدیث سے تھوڑی سی بے وفائی ہو گئی ہے؟

امیرِ محترم:

:وہ کس طرح؟

صحافی:

 وہ اس طرح سے کہ آپ اتنا منظم نہیں ہو سکےآپ کی جماعت  تقسیم ہو گئی، آج بھی ہشام الہی ظہیر  تنقید کر رہے ہیں آپ سے ناراض ہیں۔

 

 

امیرِ محترم:

دیکھیں ایک  تو  ہوتا ہے party میں گروپ وہ رہے ہیں اور جماعتوں میں ہوتے ہیں  جیسے میں نے پہلے کہا کہ ہماری جماعت میں میاں فضل حقؒ  گروپ تھا اور ہمارے گروپ کو علامہ احسان الہی ظہیر  گروپ کہتے تھے ۔

جب میں جماعت کی قیادت میں آیا تو ہم  نےکوشش  کی ہم مل کے کام کریں اور جماعت میں اتحاد ہو گیا۔ یہ تھے گروپ اور جماعتیں

یا جس طرح  جماعت الدعوہ یا لشکر طیبہ کہہ لیں وہ وہ ایک الگ جماعت یا گروپ ہے۔یہ جن کا آپ نے نام لیا ہے یہ گروپ یا جماعت نہیں ہیں  یہ صحیح معنوں میں  افراد ہیں   ان کے ساتھ کسی  عداوت کی وجہ سے نہیں کہہ رہا  حقیقت یہ ہے کہ یہ  افراد ہیں ۔ ان کی کوئی کوئی جماعتی سٹینڈنگ نہیں ہے۔

اور نہ ہی  یہ کسی سیاسی اختلاف کی وجہ سے  علیحدہ ہیں اگر آپ نے ہشام کا نام لیا ہے وہ ترستا اور روتا رہا ہے کہ ن لیگ کا ٹکٹ اسے مل جائے اس کے لیے اس نے بھرپور کوشش کی ہے جب  نہیں ملی  تو پھر مخالفت پر اتر آیا ہے۔نہ تو ان سے کوئی سیاسی اختلاف ہے نہ  کوئی  دینی مسلکی اختلاف  ہےصرف وہ  اپنی حیثیت سے زیادہ عہدے  اور مرتبے چاہتے ہیں  جو انہیں مل نہیں سکا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Post