علامہ ساجد میر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے بلامقابلہ امیر، سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم سیکرٹری جنرل جبکہ حاجی عبدالرزاق ناظم مالیات منتخب ہوگئے۔
اجلاس میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں سے600 ارکان شوری کی شرکت
سینیٹر علامہ ساجدمیر اپنی جماعت کے چھٹی مرتبہ بلامقابلہ امیر منتخب ہوئے۔ حافظ عبدالکریم تیسری بار سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہو ئے۔
حاجی عبدالرزاق بھی چھٹی مرتبہ ناظم مالیات منتخب ہو ئے
علامہ ساجد میر نے ارکان شور ی کی طرف سے ملنے والے مسلسل اعتماد اور انتخاب پر ا نکا شکریہ اداکیا۔
ملک میں قرآن وسنت کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔علامہ ساجد میر
قرآن وسنت کی دعوت گھر گھر پہنچانے کے لیے تنظیم کی مضبوطی کے لیے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کا رلایا جائے گا۔علماء اور کارکنوں کی عزت واحترام اور انکے وقار کا رتحفظ کیا جائیگا۔علامہ ساجد میر
علامہ ساجد میر امارت کے جبکہ حافظ عبدالکریم نے نظامت کے عہدوں کا حلف اٹھالیا۔
مرکزی شور ی کے اجلاس میں مختلف قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔
8مارچ2020 ء لاہور – مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی مجلس شوری کا انتخابی اجلاس مرکز الاصلاح پھول نگر میں منعقد ہوا۔ جس میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں سے600 ارکان شوری نے شرکت کی۔ اجلاس میں علامہ ساجد میر کو مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے بلامقابلہ امیر، سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کو سیکرٹری جنرل، جبکہ حاجی عبدالرزاق کو ناظم مالیات منتخب کرلیا گیا۔سینیٹر علامہ ساجدمیر اپنی جماعت کے چھٹی مرتبہ بلامقابلہ امیر منتخب ہوئے۔جبکہ حافظ عبدالکریم تیسری بار سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہو ئے۔ ۔حاجی عبدالرزاق بھی چھٹی مرتبہ ناظم مالیات منتخب ہو ئے۔پروفیسر ساجد میر 2 اکتوبر 1938ء میں سیالکوٹ کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات، جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ اور تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور سے فاضل درس نظامی اور وفاق المدارس السلفیہ سے عالمیہ کا کورس کیا۔سیاست سے پہلے انہوں پاکستان سمیت عالمی سطح کے تعلیمی اداروں میں انگلش کے استاد کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دیے۔
وہ کئی سال تک نائجیریا کے تعلیمی اداروں میں بھی بطور پروفیسر خدمات انجام دیتے رہے۔علامہ ساجد میرپہلی بار 1992ء میں امیر منتخب ہوئے تھے۔جبکہ 1994 سے تاحال ایوان بالا سینیٹ کے ممبر بھی چلے آرہے ہیں۔ وہ پچیس سے زائدعالمی کا نفرنسوں میں شرکت کرچکے ہیں۔ وہ رابطہ عالم اسلامی کی سپریم کونسل کے رکن بھی ہیں۔تصنیفی میدان میں ان کی کتاب عیسائیت، مطالعہ وتجزیہ، عالمی شہرت حاصل کرچکی ہے۔ نومنتخب ناظم اعلی ڈاکٹر حافظ عبدالکریم بھی اعلی تعلیم یافتہ ہیں سعودی عرب کی جامعات سے دینی علوم کی تعلیم کے علاوہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے انہوں نے اسلامیات کے مضمون میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ وہ اس وقت سینیٹ کے ممبر کے علاوہ رابطہ عالم اسلامی کی سپریم کونسل کے رکن بھی ہیں۔ڈی جی خاں سے وہ ایم این اے بھی منتخب ہوئے تھے اور وہ مواصلات کے وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔انکی رفاہی وسماجی خدمات کا بھی وسیع دائرہ ہے۔ نومنتخب ناظم مالیات حاجی عبدالرزاق لاہورکی سیاسی،سماجی اور کاروباری شخصیت ہیں اور پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔
علامہ ساجد میر نے ارکان شور ی کی طرف سے ملنے والے مسلسل اعتماد اور انتخاب پر ا نکا شکریہ اداکیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک میں قرآن وسنت کی بالادست اور جمہوریت کے استحکام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔قرآن وسنت کی دعوت گھر گھر پہنچانے کے لیے تنظیم کی مضبوطی کے لیے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کا رلایا جائے گا۔علماء اور کارکنوں کی عزت واحترام اور انکے وقار کا رتحفظ کیا جائیگا۔
مرکزی شور ی کے اجلاس میں مختلف قراردادیں بھی منظور کی گئیں جس میں کہا گیا کہ حرمین کے تقدس پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، اگر کسی نے بھی حرمین شریفین کی طرف میلی آنکھ اٹھائی تو وہ آنکھیں نکال دی جائیں گی۔ قرارداد میں واضح کیا گیا کہ کہ سعودی عرب کا دشمن اسلام اور پاکستان کا دشمن ہے،ارضِ حرمین کادفاع پاکستان اور عالم اسلام کا دفاع ہے۔، پاکستان سعودی عرب کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا، جو لوگ سعودی عرب اور خادمین حرمین شریفین کے درمیان فرق کرتے ہیں وہ اسلام اور حرمین شریفین کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔
دوسری قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے,کچھ پوشیدہ قوتیں ہمارے خاندانی نظام کو پاش پاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، سول سوسائٹی کے نام پر کچھ خواتین جن نعروں کے ساتھ سڑکوں پر آئیں وہ قابل مذمت ہے۔قرارداد میں خواتین مارچ کی آڑ میں فحاشی کی مذمت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ان پس پردہ قوتوں کو سامنے لاکر ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ پاکستان اسلامی ملک ہے جس میں اسلام سے متصادم قوانین نہیں بن سکتے، یہ مذہب اورآئین پر حملہ ہے۔ ملک کے 98 فیصد لوگ اسلام چاہتے ہیں جبکہ 2 فیصد این جی اوزوالے ہمارے ملک کوہائی جیک کرناچاہتے ہیں جن پر پابندی عائدکی جائے۔ اسلام اورہماری روایات کے خلاف باتیں جاری ہیں، میراجسم میری مرضی جیسے نعروں کاکیامطلب ہے، اگرحکومت ان لوگوں کو نہ روکے گی توپھرہم خود روکیں گے
مرکزی مجلس شوریٰ کایہ اجلاس مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر مسلسل بھارتی ریاستی دہشت گردی،کرفیو اور سرچ آپریشن کے نام پر بستیوں کی بستیوں کو بے گھر کرتے ہوئے مال و اسباب کی لوٹ مار و قتل و غارت گری بالخصوص نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی حکمت عملی کی شدید مذمت کرتا ہے۔اور اس امر پر تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن اور دیگر انسانی حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود مظالم بند کرنے کی بجائے نہایت ڈھٹائی سے بھارت ریاستی دہشت گردی کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔اجلاس بھارت کے اندرون شہروں میں مسلم کش فسادات کی بھی مذمت کرتا ہے،بھارتی مسلمانوں کی جرات وبہادری کو سلام پیش کرتا ہے۔ تمام انسانیت کش ہتھکنڈوں کے باوجود شمع آزادی فروزاں رکھنے کے لئے شہداء کی قربانیوں اور قائدین حریت اور مجاہدین کی استقامت پرانہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ یہ اجلاس موجودہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتاہے۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم اپنے تمام اعلانات کی خود ہی مسلسل نفی کررہی ہے۔
پاکستان کو مدینہ جیسی اسلامی ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے آسیہ ملعونہ کو نہ صرف رہا کردیا بلکہ اس عمل پر احتجاج کرنے والے عاشقان رسول ؐ پر سنگین مقدمات قائم کرکے ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالدیا۔ کراچی سمیت ملک بھر میں تجاوزات کے خاتمے کے نام پر لاکھوں عوام کو روز گار اور چھت سے محروم کردیا گیا۔ ایک کروڑنوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے وعدوں کے متعلق اب تک کوئی جامع منصوبہ بندی سامنے نہ آئی۔ وزیراعظم نے اپنے اعلان کے برعکس وفاقی کابینہ 12وزراء کی بجائے کئی درجن وزراء،مشیروں اور معتمدین خاص پرتشکیل دی ہے۔ جوکہ قومی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے
سابقہ حکومتوں نے پاکستان کو 26ہزار ارب روپے سے زائد کا مقرو ض بنایا تھا اور وزیر اعظم نے اسی نکتے کو بڑی چارج شیٹ بنایا لیکن اب مسلسل قرضوں کے حجم میں اضافہ ہو رہاہے۔ سرمایہ کی بیرون ملک منتقلی روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے مثبت کی بجائے منفی نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ کاروباری طبقہ سرمایہ کاری کے حوالے سے خوف کا شکار ہے جبکہ بازار حصص مسلسل مندی کی طرف گامزن ہے۔ نئی سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہایت پریشان کن ہے۔ پاکستان کے قرضوں میں کئی سوارب روپے کااضافہ ہوگیاہے۔ چین سے متوقع قرضہ پر شرح سود 8فیصد سالانہ ہے۔ یہ بہت مہنگا قرضہ ہے جبکہ بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی اُمیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں۔ احتساب کے نام پر مذاق جاری ہے اور عوام مسلسل مایوس ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں یہ اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ حکمران اپنے منشور،وعدوں اور دعوؤں کا از سر نو جائزہ لیں اور ایسے نظر آنے والے اقدامات کریں کہ قوم کو مایوسی سے چھٹکارا اور مسائل سے نجات حاصل ہوسکے۔
یہ اجلاس حکومت کی طرف سے پاکستان میں اسرائیلی شہریوں کی آمد کا دروازہ کھولنے اور اسے قانونی قرار دینے کے شرمناک اقدام کی شدید مذمت کرتا ہے۔ وزارت داخلہ کے ویب پیج پر اسرائیلی شہریوں کی رجسٹریشن کی ہدایات جاری کرنا بانی پاکستان کے اس دوٹوک اعلان کی توہین ہے جس میں انہوں نے صہیونی ریاست کو ناجائز اولاد قرار دیتے ہوئے اسے کبھی تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ سنایاتھا۔ ناموس رسالت کے قانون میں تبدیلی کی کوشش کو غلطی قرار دینے کی طرح اب اس سنگین جرم کو بھی غلطی قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جو مزید تشویش ناک ہے۔ اجلاس اس اقدام کی مکمل تحقیق اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ مجلس شوریٰ کا اجلاس شام میں جاری خانہ جنگی پر بھی گہری تشویش کااظہار کرتا ہے۔ دونوں برادر ملکوں کو بدترین تباہی اور مظالم کا شکار کیا جارہاہے۔ مختلف طاقتیں خطے میں اپنے مفادات اور منصوبوں کی خاطر خانہ جنگی کی آگ پر مزید تیل چھڑک رہی ہیں۔یہ اجلاس تمام متعلقہ فریقوں اور تمام برادر ممالک بالخصوص پاکستان، سعودی عرب، ایران اور ترکی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ روز بروز بڑھتی ہوئی اس خون ریزی کی آگ کو فوراً بجھانے کے لیے عملی اقدامات اُٹھائیں
مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس افغانستان و عراق میں امریکی افواج کی آمد کے بعد سے جاری قتل و غارت، دہشت گردی اور ان ممالک میں مستقل امریکی اڈے تعمیر کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ اہم جغرافیائی حیثیت کے حامل ان ممالک میں مستقل فوجی اڈوں کی تعمیر پورے خطے کے دفاعی توازن اور معاشرتی نظام کو تباہ کرنے کا سبب بن رہی ہے۔طالبان سے مذاکرات کو خوش آئند قراردیتا ہے تاہم افغان گروپوں کے باہمی تصادم پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ افغان، پاکستانی، عراقی اور شامی شہداء کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں تک جا پہنچی۔ مالی نقصانات اربوں نہیں کھربوں تک جا پہنچے۔ لیکن اب بھی اس بلا جواز جنگ کی اصل جڑ یعنی بیرونی مداخلت ختم کرنے کے بجائے امریکا نہ صرف پورے خطے کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے بلکہ خود بھی مسلسل تباہی کی راہ پر چل رہا ہے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ افغانستان و عراق کو ہر طرح کی بیرونی مداخلت سے پاک کرتے ہوئے خود وہاں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ اور ملک کی تعمیر کرنے کا موقع دیا جائے۔
اجلاس دنیا کے ہر انصاف پسند انسان، حقوق انسانی کی تنظیموں اور پوری عالمی برادری کو متوجہ کرتا ہے کہ اس وقت کئی مسلم ممالک اور مسلم علاقوں میں دو لاکھ سے زیادہ بے گناہ سیاسی کارکنان اور عام شہری قیدوبند کاشکار ہیں۔ ساٹھ ہزار سے زائد بے گناہ مردوزن صرف مصر میں پس دیوار زنداں ہیں۔ اجلاس ان تمام بے گناہ قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ ایک طویل عرصے سے امریکی جیل میں محبوب ہے۔ اس دختر پاکستان کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے مسلسل مطالبہ کیا جارہاہے۔ لیکن امریکی حکومت کو ئی نوٹس نہیں لیا۔ مجلس شوریٰ حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر اس کیس کو امریکی قیادت کے سامنے پیش کرے اور ڈاکٹر عافیہ کو بحفاظت اپنے گھر لانے کا بندوبست کرے۔
مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مدینہ کی اسلامی ریاست کادعویٰ کرنے والی حکومت کی طرف سے ملک میں دینی مدارس کے لیے مشکلات اور رکاوٹیں پیداکرنے کی مذموم پالیسی پر تشویش کااظہار کرتاہے۔دینی مدارس کی روشن تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ یہ مدارس پاکستان کے نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ہیں اور ملک میں اسلامی علوم کی اشاعت کے ساتھ معاشرے کی دینی ضروریات کو پورا کرنے کا مبارک فریضہ انجام دے رہے ہیں۔دینی مدارس کی سرپرستی پاکستان کے اسلام پسند عوام کرتے ہیں اور ان مدارس کے حسابات کے واضح اور باقاعدہ آڈٹ ہوتے ہیں۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف مدارس کو حسابات بارے پوچھا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف مدارس کے نام پر بینک اکاؤنٹس کھلوانے میں بے جا رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ مدارس کے نام پر بینک اکاؤنٹس کے طریقہ کار کو آسان اور سہل بنایاجائے اور اکاؤنٹ کھلوانے کے تمام تقاضے پورے ہونے کے بعد غیر ضروری تاخیر سے گریز کیاجائے۔اجلاس نے حکومت کو خبرد ار کیاہے کہ وہ مدارس کی بندش کے خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ ریاست مدینہ میں مدارس بنائے جاتے ہیں۔ گرائے نہیں جاتے۔ پاکستان میں دینی مدارس کے پانچ امتحان بورڈ زکو دیگر بورڈز کی طرح باقاعدہ قانونی حیثیت دی جائے۔
مجلس شوریٰ کایہ اجلاس اس امر پر گہری تشویش کااظہار کرتاہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے مملکت خداداد پاکستان کے اندر اسلامی تہذیب وتمدن کے فروغ اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے راستے میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے نہ صرف سرد مہری اور عدم فعالیت کا مظاہر ہ کیاہے بلکہ بسااوقات یہ اس راستے میں عملاً شدید طور پر رکاوٹ بنی رہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کا مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا نعرہ اگرچہ خوش آئند ہے۔ لیکن اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا کہ صرف بات اور اعلان سے پاکستان مدینہ منورہ کی ریاست نبویؐ کی صورت اختیار نہیں کرسکتی ہے۔ جب تک کہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ اس جانب پیش قدمی نہ کرے۔مر وجہ قوانین کو قرآن و سنت کے تابع بنانے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ لیکن برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے کونسل کے مسودات کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے سامنے پیش نہیں کیا جوآئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
یہ اجلاس موجودہ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ کونسل کی مسودات کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے سامنے پیش کرکے قانونی اور عدالتی نظام کو مکمل طور پر شریعت کے مطابق بنائے۔ختم نبوت اور حرمت رسول ؐ ہمارا بنیادی عقیدہ ہے متحدہ ہندوستان میں انگریز کوہر جگہ مسلمانوں کی طرف سے توحیدورسالت کے عقیدے کی وجہ شدید مزاحمت کاسامنا رہاہے۔ جس کاحل انگریز نے ایک جھوٹے پیغمبر کی صورت میں نکالا اور قیام پاکستان کے بعد یہ طبقہ نظریہ پاکستان کے خلاف منظم طور پر میدان میں اترا اور اس کے افراد ہر شعبہ میں انتہائی اہم مناصب پر فائز ہوئے۔ جس کے نتیجے میں اسلامی نظام زندگی کے قیام، اسلامی قوانین کے نفاذ وار اسلامی تہذیب کی ترویج میں شدید رکاوٹوں کا سامنا رہاہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے قومی اسمبلی پاکستان نے آئینی ترمیم کے ذریعے عقیدہ ختم نبوت کو ”مسلمان“ کی تعریف کاحصہ بنادیا۔قیام پاکستان کے دوام اور اقوام عالم میں وقار مقا م کے لیے لازم ہے کہ پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدن کو رواج دیاجائے۔ پوری نظام زندگی میں شریعت کی خلاف ورزی سے مکمل اجتناب کیاجائے