لاہور (8 فروری2020 ء) – مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر علامہ ساجد میر نے کہا ہے کہ مہنگائی کے سونامی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔غریب آدمی کا چولہا بجھ گیا۔ ملک میں مہنگائی کی شرح 14.6 فیصد تک پہنچ گئی۔ چینی اور آٹا مہنگا کرکے اربوں روپے کمانے والے حکومتی صفوں میں بیٹھے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اشرافیہ کے ٹیکس نہ دینے کا غصہ عام آدمی پر نکالا جارہا ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔عوام تنگ آمد بجنگ آمد کی تصویر بن کے ر ہ گئے ہیں۔لیڈ ر شپ غائب ہے۔اپوزیشن کی تقسیم کا فائدہ حکومت کو ہے۔ عوام پس رہی ہے،عام آدمی کی نمائندگی کون کرے گا؟
مولانا فضل الرحمن کے اپوزیشن جماعتوں سے گلے شکوے درست ہیں۔ حکومت کے لیے ایک موثر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔۔ مرکز راوی روڈ میں علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سرعام پھانسی کی سزا عین اسلامی ہے۔ لبرل اور لادین طبقات کی طرف سے مخالفت افسوس ناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام پر مہنگائی کا سارا بوجھ آئی ایم ایف کی ان شرائط پر عملدرآمد کے نتیجہ میں ہی پڑا ہے کیونکہ ان شرائط کی بنیاد پر ہی ضمنی اور قومی میزانیوں میں ٹیکسوں کی شرح بڑھائی گئی اور نئے ٹیکس لگائے گئے جبکہ بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات اور ادویات کے نرخ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع ہی ہر ماہ بڑھائے جارہے ہیں جس سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کو مہنگائی کے مزید چھانٹے لگ رہے ہیں اور ان کیلئے سکھ کا سانس لینا مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے۔
اگر اب آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بجلی اور گیس کے نرخ مزید بڑھائے جاتے ہیں تو اس سے عام آدمی کیلئے زندہ رہنا بھی مشکل ہو جائیگا چنانچہ مزید مہنگائی پر حکومت کو عواام کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بدقسمتی سے عوام کیلئے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہو گئے ہیں اور اب آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع مہنگائی کا نیا سونامی بھی اٹھ سکتا ہے جو حکومتی گورننس کیلئے یقیناً آزمائش کا باعث بنے گا اس لئے قومی معیشت کو جکڑنے والے آئی ایم ایف کے قرض کی خاطر اسکی ایسی شرائط من و عن قبول نہ کی جائیں جو مزید مہنگائی کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔
کنونشن سے سینیٹر حافظ عبدالکریم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شرافیہ ٹیکس نہ دے تو اس کا بوجھ عوام پر ڈال دو۔ تاجر ٹیکس نہ دیں تو اس کا بوجھ عوام پر منتقل کر دو۔ جب بالواسطہ ٹیکس عائد ہوتے ہیں تو صنعتکار اور تاجران کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کر دیتے ہیں۔ حکومت کو تو اپنے اہداف حاصل کرنے ہیں۔ ان کو تو عالمی مالیاتی سامراجی اداروں کو خوش کرنا ہے تا کہ مزید قرض لیا جا سکے۔ اس لیے عوام پر کیا بیت رہی ہے، وہ کس اذیت میں مبتلا ہیں اس سے حکومتی معاشی ماہرین کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٹیکس لگائے جا ؤ۔ مہنگائی کرتے جاؤ۔ بجلی، گیس، پٹرول مہنگا کرتے جاؤاور پھر معصومیت سے کہو کہ مہنگائی کی وجہ ہماری پالیسیاں تو نہیں ہیں۔ یہ تو پچھلی حکومتوں کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔ بس تھوڑا صبر کریں۔ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کب تک ہو جائے گا یہ خود ان کو بھی پتہ نہیں ہے۔
پروفیسر ساجد میر نے مزید کہا کہ دوسری وجہ قیمتوں پر حکومتی کنٹرول کا خاتمہ ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کا جو تھوڑا بہت نظام موجود تھا وہ بھی تباہ ہو چکا ہے۔ دکھادے کہ چھاپوں اور اجلاسوں کے علاوہ عملی طور پر کوئی ایسا نظام اور میکنزم موجود نہیں ہے جو کہ قیمتوں کو کنٹرول میں رکھ سکے اور ناجائز منافع خوری کو روکے۔کنونشن سے علامہ ابتسام الہی ظہیر، قاری صہیب میر محمدی، ڈاکٹر عبدالغفور رراشد، مولانا عبدالحمید ہزاروی نے بھی خطاب کیا۔